Breaking

Thursday, August 1, 2019

allama iqbal poetry

Allama Iqbal poetry 

علامہ اقبال

ڈاکٹرسرعلامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو 

اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا 


علامہ اقبال کی کتابيں

  • پیام مشرق  موضوع  شاعری
  • پس چہ باید کرد ای اقوام شرق موضوع شاعری
  • ارمغان حجاز موضوع شاعری
  • ارمغان حجاز موضوع متفرقات
  • اسرار خودی موضوع شاعری
  • بال جبریل موضوع شاعری
  • بانگ درا موضوع شاعری
  • تجدید فکریات اسلام موضوع فقہ، اجتہاد و قانون
  • جاوید نامہ موضوع شاعری
  • زبور عجم موضوع شاعری
  • ضرب کلیم موضوع شاعری

Poetry of Allama Iqbal

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا 
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا 

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے 
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا 

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے 
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا 

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر 
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا 

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا 
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں 
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا 

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے 
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا 

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا 
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا 

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو 
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا 

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا 
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا 

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں 
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا 

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا 

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی 
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا 

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو 
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا 

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا 
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا 

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی 
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا


اصل مرد مجاحد


Poet: علامہ محمد اقبال
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار


یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز

Poet: Allama Iqbal
یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز 
اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز 

گو فقر بھی رکھتا ہے انداز ملوکانہ 
ناپختہ ہے پرویزی بے سلطنت پرویز 

اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی 
خون دل شیراں ہو، جس فقر کی دستاویز 

اے حلقۂ درویشاں وہ مرد خدا کیسا 
ہو جس کے گریباں میں ہنگامۂ رستاخیز 

جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن 
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز 
کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا 
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز 

یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس 
یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خوں ریز 

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش

Poet: Allama Iqbal

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش 
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش 

کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام 
مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش 

میں نے پایا ہے اسے اشک سحرگاہی میں 
جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش 

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں 
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش 

صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے 
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش 


کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف

Poet: Allama Iqbal
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف 
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے 
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف

تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور 
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحب کشافؔ

سرور و سوز میں ناپائیدار ہے ورنہ 
مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں ناصاف 

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

Poet: Allama Iqbal
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق 
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں 
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا 
غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب 
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم 
بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق
مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت 
ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی 
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق 



فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک

Poet: Allama Iqbal




فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک 
رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک

وہ خاک کہ ہے جس کا جنوں صیقل ادراک 
وہ خاک کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک

وہ خاک کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی 
چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک

اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو 
کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک 

شاہيں

Poet: Allama Iqbal


الفاظ و معاني ميں تفاوت نہيں ليکن
ملا کي اذاں اور مجاہد کي اذاں اور

پرواز ہے دونوں کي اسي ايک فضا ميں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہيں کا جہاں اور



Click on this in order to read. These are the most famous books of Allama Iqbal.




Payam e Mashriq: 001: Tamheed




Payam e Mashriq: 002 Debacha



Payam e Mashriq: 006 Afkar


Payam e Mashriq: 007 Mai Baqi


Payam e Mashriq: 008 Naqsh e Farang

Payam e Mashriq: 003 Muqadma


Payam e Mashriq: 004 Paishkash

Payam e Mashriq: 005 Lala e Toor

No comments:

Post a Comment