Breaking

Saturday, August 3, 2019

August 03, 2019

free online urdu novels

Free online Urdu novels

Here are the most popular novels to read online. If you are finding to get online read. This is the best site to do this.

List of novels by Umera Ahmad


free online urdu novel







Peer e Kamil By Umera Ahmad
 Amar Bel
Read online: Amar bail
Umeed Aur Mohabbat
Read online: Umeed aur Mohabbat
La Hasil
Read online: La Hasil
Mane Khabboo ka Shajar Dekha ha
Meri Zaat zara benishan
Qaid e Tanhai
Read online: Qaid e Tanhai
Shehar e Zaat
Read online: Shehar e Zaat
Ye jo subah ka ik sitara ha
Koi lamha khuaab ni hota




Islami Book



 Harf Harf haqeeqat
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Kiran Kiran Sooraj
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Katra Katra Kulzum
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Allah mohabat ha
 Haya Resham
 Read
 Alah Mohabat Ar Banda
 Dr Asif Mahmood
 Read
 Aokia Karaam
Shahid Nazeer Chaudry 
 Read







Fathullah ul ahad Sharh Al Adab ul Mufrad By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri

Mahmood ul Fatawa New By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri محمود الفتاوی جدید


Husn e Khatma By Mufti Shuaibullah Khan Miftahi حسن خاتمہ

Anwaar e Hajj o Umrah By Mufti Muhammad Salman Zahid انوار حج و عمرہ



Kitab un Nahwa By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب النحو


Kitab us Sarf By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب الصرف


Deen e Rahmat By Maulana Shah Moinuddin Ahmad Nadvi دین رحمت


Islam aur Daor e Hazir kay Shubhaat o Mughaltay By Mufti Muhammad Taqi Usmani اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے


 

 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
 Fazail a amal part 2
Read Online Part 2
 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
 Fazail-e-Darood Sharif by muhammad zakariyya
 MuntakhabAhadith-Urdu-ByShaykhMuhammad

Read Online

Read Online

Read Online



 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
Volume 1 contains:

Hikayat-e-Sahabah (Stories of the Sahabah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Quran (Virtues of the Quran) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Namaz (Virtues of Salah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Zikr (Virtues of Dhikr) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Tabligh (Virtues of Tabligh) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Ramadhan (Virtues of Ramadan) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Musalmano-ki-Maujudah-Pasti-ka-Wahid-Ilaj (Muslim Degeneration and its Only Remedy) by Ihtisham ul-Hasan Kandhalvi


 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya

Volume 2 contains:


Fazail-e-Sadaqat (Virtues of the Sadaqah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi

Fazail-e-Hajj (Virtues of Hajj) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi

Thursday, August 1, 2019

August 01, 2019

parveen shakir

Parveen Shakir Poetry

Intro: She is an Urdu poet. She is born in Karachi in 1952.
She buried in Islamabad.


پروین شاکر 24نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ایک ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ 26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ انکی شاعری کا موضوع محبت اور
عورت ہے۔ خوشبو، صدبرگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام مجموعہ کلام ہیں 

perveen



دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر


Poet: Parveen Shakir



دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر 
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر 

پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر 
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر 
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی 
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر 

ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ 
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر 

تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا 
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر 

لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے 
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر


کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

Poet: Parveen Shakir

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی 
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی 

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 
ہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا 
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی 

تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے 
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی 

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے 
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی


اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

Poet: Parveen Shakir
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک 
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک 

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر 

ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک 
دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے 
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک 

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی 
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک 

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر 
میں نام ترا لکھوں کہاں تک 

تنہائی کا ایک ایک لمحہ 
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک 

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج 
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک 
سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو 
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک 

منسوب ہو ہر کرن کسی سے 
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک 

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں 
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک



خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

Poet: Parveen Shakir
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم 
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم 

کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں 

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم 

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے 

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم 

پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا 

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے 
مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم 

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر 
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم 

ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں 
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم 

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام 
لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم 

قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے 
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم 
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے 
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم 

ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا 
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم 


ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

Poet: Parveen Shakir
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا 
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا 

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو 

کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا 

اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ 
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا 
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا 


پورا دکھ اور آدھا چاند

Poet: Parveen Shakir
پورا دکھ اور آدھا چاند 
ہجر کی شب اور ایسا چاند

دن میں وحشت بہل گئی 

رات ہوئی اور نکلا چاند

کس مقتل سے گزرا ہوگا 

اتنا سہما سہما چاند

یادوں کی آباد گلی میں 
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند

میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند

آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند

برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند

رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند

سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اس کی صورت ہجر کا چاند

صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند

رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند 


گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

Poet: Parveen Shakir
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح 
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے 

جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک 

اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے 

تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار 
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح 


وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا

Poet: Parveen Shakir
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا 
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا

فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس 

تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا

وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں 
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا

وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا 


وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

Poet: Parveen Shakir
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا 
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا 

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے 

ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے 

موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی 

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث 
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا 


ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا

Poet: Parveen Shakir
ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا 
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اس کے آنے کا 

اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا 

یہ خواب زاد ہے کردار کس فسانے کا 

کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے 

اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا 

ابھی میں ایک محاذ دگر پہ الجھی ہوں 

چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا 

کچھ اس طرح کا پر اسرار ہے ترا لہجہ 
کہ جیسے رازکشا ہو کسی خزانے کا 



ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

Poet: Parveen Shakir
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا 
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا 

دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشن طرب میں ہم 

ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا 

جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود 

سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا 

کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام 

اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا 

آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں 
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا 


ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا

Poet: Parveen Shakir
ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا 
وہ میرے سامنے جب پیرہن بدلنے لگا 

بہم ہوئے ہیں تو اب گفتگو نہیں ہوتی 

بیان حال میں طرز سخن بدلنے لگا 

اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا گیا ہے کوئی 

بس اک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا 

ذرا سی دیر کو بارش رکی تھی شاخوں پر 

مزاج سوسن و سرو و سمن بدلنے لگا 

فراز کوہ پہ بجلی کچھ اس طرح چمکی 
لباس وادی و دشت و دمن بدلنے لگا 


قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

Poet: Parveen Shakir
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا

نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے

اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا

آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا

جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا

کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی

مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا

پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا

اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا

مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا


کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

Poet: Parveen Shakir
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک

یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا

اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں

زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید

بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا

شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں

کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا

دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے

سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا

اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سر بام ابھرنے والا


گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

Poet: Parveen Shakir
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے

ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا

بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی

حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا

لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا

جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا

جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا


میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

Poet: Parveen Shakir
میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا 
ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا 

اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر 

سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا 

مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی 

پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا 

بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی 

بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا 

پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا 

قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا 

ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت 

اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا 

پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے 

ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا 

طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا 
اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا 


چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا

Poet: Parveen Shakir
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی

وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری

مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا

اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں

وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا

جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا


چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

Poet: Parveen Shakir
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی

اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر

بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا