Breaking

Tuesday, October 15, 2019

October 15, 2019

Mirza galib

مرزا غالب



 یک روز حافظ داؤد اور کنورابراہیم علی خان سویرے سویرے مرزا صاحب کے مکان پر پہنچے۔ دیوان خانہ خالی تھا ۔ دونوں حضرات وہیں مونڈھوں پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ یکا یک مرزا صاحب ننگے سر، پاؤں میں کف پائیان پہنچے اور سیدھے ہاتھو میں برانڈی کی خالی بوتل لیے برآمد ہوئے ۔ مرزا کے ہاتھ میں خالی بوتل دیکھ کر ان دونوں صاحبان کی ہنسی روکے نہیں رکی۔
کنور صاحب نے کہا: آپ کا پینے کا شوق کیا اتنا بڑھ گیا ہے کہ بیت الخلا میں بھی بوتل ساتھ جانے لگی۔
مرزا نے جواب دیا،توبہ کیجیے تو بہ۔اپنے منہ پر تھپڑماریے۔شراب جیسی پاک چیز بیت الخلا میں نہیں جاسکتی ۔میں اس کی حرمت کو خوب پہچانتاہوں۔
امروسنگھ جوہر گوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے ۔ ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہ نے مرزا صاحب کو بھی لکھا تو انھوں نے جواباًلکھا : ”امرو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے ۔
اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دوبار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ پچاس برس سے اوپر جوپھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے ، تو نہ پھنداہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے ۔“
ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے ،مرزا صاحب کے مکان پرآئے ۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ۔ اتفاق سے ایک گدھے والا اپنا گدھا لیے سامنے سے گزرا۔
زمین پر آم کے چھلکے پڑے تھے ۔گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑکر آگے بڑھ گیا۔ حکیم صاحب نے جھٹ سے مرزا صاحب سے کہا : ”دیکھے! آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا ۔“مرزا صاحب فوراًبولے ”بیشک گدھا، نہیں کھاتا“
ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے مکان پر آئے۔ دیکھا کہ مرزاصاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ یہ اُن کے پاؤں دابنے لگے۔
مرزا صاحب نے کہا ”بھئی توسیّد زادہ ہے، مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ؟“ میرمہدی مجروح نہ مانے اور کہا کہ” آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیردابنے کی اُجرت دے دیجیے گا“ ۔ مرزا صاحب نے کہا ” ہاں اس میں مضائقہ نہیں ۔“جب وہ پیر داب چکے تو انھوں نے ازراہ مزاح مرزا صاحب سے اُجرت مانگی ۔ مرزا صاحب نے کہا ”بھیا کیسی اُجرت ؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمھارے پیسے دابے ‘ حساب برابر ہوگیا ۔

مرزا غالب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں کئی مکانات دیکھے ،جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا ،مگر محلسرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کو محلسرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں۔ مرزا صاحب نے پوچھا ، تو بیگم صاحبہ نے بتایا کہ
” اس مکان میں لوگ بَلابتاتے ہیں “
مرزا صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور ہنس کر کہا :
” کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بَلا ہے۔

ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ : ”مرزا! تم نے کتنے روزے رکھے ؟“ مرزا صاحب نے جواب دیا” پیرومرشد : ایک نہیں رکھا۔ “
ایک دفعہ ماہ رمضان کے مہینے میں مرزا غالب نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگاکر کھایا ۔ ایک متقی پرہیزگار شخص جوپاس ہی بیٹھے تھے بڑے متعجب ہوئے اور پوچھا، حضرت! آپ روزہ نہیں رکھتے ۔
مرزاصاحب نے مسکرا کرکہا ” شیطان غالب ہے ۔“
ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر1858ء کی اخیرتاریخوں میں خط ارسال کیا ۔ دوست نے جنوری 1859 ء کی پہلی یادوسری تاریخ کو جواب لکھا ۔ مرزا صاحب ان کو لکھتے ہیں ۔
” دیکھو صاحب یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔ 1858 ء کے خط کا جواب 1859 ء میں بھیجتے ہو اور مزا یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ میں نے تو دوسرے ہی دن جواب لکھا تھا۔

ہنگا مہ غدر کے بعد جب مرزا غالب کی پنشن بند تھی ۔ ایک دن پنڈت موتی لال، میرمنشی لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب‘مرزا صاحب کے مکان پر آئے ۔ دوران گفتگو میں پنشن کا بھی ذکر آیا مرزا صاحب نے کہا ” تمام عمر اگر ایک دن شراب نہ پی ہو ‘ تو کا فر اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کس طرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کیا۔

ایک دن کسی محفل شعرد سخن میں مولانا صہبائی کا ذکرآیا تو مرزا غالب نے کہا کہ ”مولانا نے بھی کیا عجیب وغریب تخلص رکھا ہے، عمر بھر میں ایک چلو بھی پینا نصیب نہیں ہوئی اور صہبائی تخلص رکھا ہے، سبحان اللہ قربان جائیے اس اتقا کے اور صدقے جائیے اس تخلص کے ۔“
مرزا غالب کو بھی غدرکے ہنگامے کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بلایا گیا ۔
یہ کرنل براؤن کے روبرو پیش ہوئے تو وہی کلاہ پپاخ جو یہ پہنا کرتے تھے حسب معمول ان کے سر پر تھی جس کی وجہ سے کچھ عجیب وغریب وضع قطع معلوم ہوتی تھی ۔ انھیں دیکھ کر کرنل براؤن نے کہا :
” ویل مرزا صاحب تو مسلمان ہے ؟ “
مرزاصاحب نے نہایت احترام سے جواب دیا۔
”آدھا مسلمان ہوں۔“
کرنل براؤن نے تعجب سے کہا ۔
”آدھا مسلمان کیا؟ اس کا مطلب ؟“
”شراب پیتا ہوں ،وٴرنہیں کھاتا۔
“مرزا صاحب فوراً بولے۔
یہ سُن کر کرنل براؤن بہت مخطوظ ہوا اور مرزا صاحب کو اعزاز کے ساتھ رخصت کردیا۔
جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے ۔ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔مرزا نے کہا۔”کون بھڑواقید سے چھوٹا ہے !پہلے گورے کی قیدمیں تھا ،اب کالے کی قیدمیں ہوں۔

ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی ،تو نماز پڑھنے چلے گئے۔اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہواکہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی ،چنانچہ وہ مسجد کے سامنے پہنچا اور وہاں سے بوتل دکھائی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد سے نکلنے لگے تو کسی نے کہا:”یہ کیا ؟کہ بغیرنماز پڑھے چل دیے۔“انھوں نے کہا جس چیز کے لیے دعا مانگنا تھی وہ تو یونہی مل گئی۔

ذرائع آمدنی مسدد ہوجانے کی وجہ سے مرزا غالب بیحد پریشان تھے اور لوگ روٹی کھاتے ہیں تو بقول غالب وہ خود کپڑا کھاتے تھے( ناداری کے باعث گھرمیں کپڑے اوڑھنابچھونا جو کچھ تھا سب بیچ بیچ کے کھانا پڑا)پریشانی کی اس حالت میں بھی وہ اپنی رگ ظرافت کو پھڑکنے سے باز رکھ سکے۔ایک خط میں میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔
”یہاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔
رمضان کا مہینہ روزے کھاکھا کر کاٹا۔آگے خدا رزق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔“
مرزا صاحب کھانا کھا رہے تھے، چھٹی رسان نے ایک لفافہ لا کر دیا۔لفافے کی بے ر بطی اور کا تب کے نام کی اجنبئیت سے ان کو یقین ہو گیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں ۔لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔
پوچھا: کس کا خط ہے ؟اور کیا لکھا ہے؟شاگرد کو اس کے اظہار میں تائل ہوا فوراً اس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی مسکراکر کہنے لگے کہ” اُلّو کو گالی دینی بھی نہیں آتی ۔بڈھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جو ان کو جوردکی گالی دیتے ہیں۔ کیونکہ اس کو جورد سے زیادہ تعلق ہوتاہے۔
بچے کو مالی کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔یہ قرمساق جو بہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے،اس سے زیادہ کون بیوقوف ہو گا۔“
ایک مرتبہ ایک صاحب جو مٹزاصاحب سے ملاقات کے مشتاق تھے ،بنارس سے دلی تشریف لائے اور مرزا صاحب کے یہاں حاضر ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور ساتھ ہی مرزا صاحب سے ان کے ایک شعر کی بہت تعریف کی ۔
مرزا صاحب کو جب تاب نہ ہوئی تو ان سے پوچھا کہ’ ’خفت وہ کون سا شعر ہے۔؟“
اسد!اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر‘شاباش رحمت خدا کی
مرزا صاحب نے شعر سن کر کہا۔
”اگر یہ کسی اور اسد کا شعر ہے تو اس پر خدا کی رحمت ہواور اگر مجھ اسد کا یہ شعر ہے تومجھ پر لعنت خدا کی۔“
ایک روز مرزا صاحب ،فتح الملک بہادر سے ملنے اُن کے یہاں گئے۔
جب غلام گردش میں پہنچے تو خد ستگاروں نے صاحب عالم کو اطلاع دی کہ مرزا نوشہ صاحب آرہے ہیں وہ کسی کام میں مشغول تھے اس لیے مرزا صاحب کو فوراً نہ بلا سکے۔مرزا صاحب کچھ دیر وہیں ٹہلتے رہے اتنے میں صاحب عالم نے پکار کر ملازم سے فرمایا۔
”ارے مرزا صاحب کہاں ہیں؟“
مرزا غالب نے یہ سُن کر وہیں سے جواب دیا۔
”غلام گردش میں ہے۔

یہ سُن کر صاحب عالم خود باہر تشریف لے آئے اور فوراً مرزا صاحب کو اپنے ساتھ اندر لے گئے۔
ایک باردلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔راستے میں ایک تنگ وتاریک گلی سے گزر رہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھامولانا نے یہ دیکھ کرکہا۔
”مرزا صاحب دلی میں گدھے بہت ہیں۔

”نہیں حضرت، باہر سے آجاتے ہیں۔“
مولانا فیض الحسن جھینپ کر چپ ہورہے۔
ایک دن جب کہ آفتاب غروب ہورہا تھا سیّد سردار مرزا ،مرزا غالب سے ملنے کو آئے جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر کھسکتے کھسکتے فرش کے کنار ے تک آئے تا کہ سیّد صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں۔انھوں نے کہا”قبلہ ! آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟میں جوتا خود ہی پہن لیتا۔
“ مرزا صاحب بولے میں آپ کا جوتا دکھانے کو شمع نہیں لایا بلکہ اس لیے لایا ہوں کہ کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔“
ایک دفعہ دہلی میں وبا پھیلی بمیر مہدی مجروح نے جو مراز صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔مرزا صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ”حضرت اوبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے؟“
مرزا صاحب جواب میں لکھتے ہیں”بھئی کیسی وبا؟جب (مجھ جیسے)چھیا سٹھ برس کے بڈھے اور چوسٹھ برس کی بڑھیا (مرزا صاحب کی بیوی سے مراد ہے) کو نہ مارسکی تو، تُف بریں وبا۔

مرزا صاحب نے خسرومرزا الٰہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے اور اپنے سلسلے کے شجر ہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ انھوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لیے کہا،مرزا صاحب نے نقل تو کردی مگر اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا دوسرا چھوڑ دیا۔تیسرا پھرلکھ دیا چوتھا حذف کر دیا۔اُن کے خسر صاحب یہ نقل دیکھ کر بہت ناراض ہوئے کہ یہ کیا غضب کیا۔
مرزا صاحب بولے۔
”حضرت! آپ اس کا کچھ خیال نہ فرمائیے۔شجرہ دراصل خدا تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے ،سو زینے کی ایک ایک سیڑھی اگر پیچ سے نکال دی جائے تو چنداں ہر ج واقع نہیں ہوتا۔آدمی ذرا اُچک اُچک کے اوپر چڑھ سکتاہے۔“
اُن کے خسر صاحب یہ سن کر برافرو ختہ ہوئے اور انھوں نے وہ نقل پھاڑ ڈالی اور پھر کبھی مرزا سے شجرہ نقل کرنے کی فرمائش نہیں کی۔

ایک دفعہ مرزا صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بیمارہوئیں ۔مرزا صاحب اُن کی عیادت کو گئے اور ان سے پوچھا ”کیا حال ہے۔ “انھوں نے کہا” مرتی ہوں۔ قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لیے جاتی ہوں۔“ مرزا صاحب فرمانے لگے ”بوا! بھلا یہ کیا فکرکی بات ہے! کیا خدا کے ہاں بھی مفتی صدر الدین خان بیٹھے ہیں جو ڈگری کرکے پکڑوابلائیں گے۔
غدر کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگر گوں رہی، آخر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے سوروپیہ ماہانہ تاحیات وظیفہ مقرر کر دیا۔
نواب کلب علی خان نے بھی اس وظیفے کو عاری رکھا نو اب یوسف علی خان کی وفات کے چند روز بعد نواب کلب علی خان لیفٹنٹ گورنر سے ملنے بریلی کوروانہ ہوئے تو چلتے وقت مرزا صاحب سے کہنے لگی۔”خدا کے سپرد“
مرزا صاحب نے کہا۔”حضرت !خدا نے مجھے آپ کے سُپردکیا ہے آپ پھر اُلٹامجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔“

Saturday, August 3, 2019

August 03, 2019

free online urdu novels

Free online Urdu novels

Here are the most popular novels to read online. If you are finding to get online read. This is the best site to do this.

List of novels by Umera Ahmad


free online urdu novel







Peer e Kamil By Umera Ahmad
 Amar Bel
Read online: Amar bail
Umeed Aur Mohabbat
Read online: Umeed aur Mohabbat
La Hasil
Read online: La Hasil
Mane Khabboo ka Shajar Dekha ha
Meri Zaat zara benishan
Qaid e Tanhai
Read online: Qaid e Tanhai
Shehar e Zaat
Read online: Shehar e Zaat
Ye jo subah ka ik sitara ha
Koi lamha khuaab ni hota




Islami Book



 Harf Harf haqeeqat
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Kiran Kiran Sooraj
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Katra Katra Kulzum
 Wasif Ali Wasif
 Read
 Allah mohabat ha
 Haya Resham
 Read
 Alah Mohabat Ar Banda
 Dr Asif Mahmood
 Read
 Aokia Karaam
Shahid Nazeer Chaudry 
 Read







Fathullah ul ahad Sharh Al Adab ul Mufrad By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri

Mahmood ul Fatawa New By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri محمود الفتاوی جدید


Husn e Khatma By Mufti Shuaibullah Khan Miftahi حسن خاتمہ

Anwaar e Hajj o Umrah By Mufti Muhammad Salman Zahid انوار حج و عمرہ



Kitab un Nahwa By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب النحو


Kitab us Sarf By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب الصرف


Deen e Rahmat By Maulana Shah Moinuddin Ahmad Nadvi دین رحمت


Islam aur Daor e Hazir kay Shubhaat o Mughaltay By Mufti Muhammad Taqi Usmani اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے


 

 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
 Fazail a amal part 2
Read Online Part 2
 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
 Fazail-e-Darood Sharif by muhammad zakariyya
 MuntakhabAhadith-Urdu-ByShaykhMuhammad

Read Online

Read Online

Read Online



 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya
Volume 1 contains:

Hikayat-e-Sahabah (Stories of the Sahabah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Quran (Virtues of the Quran) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Namaz (Virtues of Salah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Zikr (Virtues of Dhikr) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Tabligh (Virtues of Tabligh) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Ramadhan (Virtues of Ramadan) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Musalmano-ki-Maujudah-Pasti-ka-Wahid-Ilaj (Muslim Degeneration and its Only Remedy) by Ihtisham ul-Hasan Kandhalvi


 Fazail-e-amaal by muhammad zakariyya

Volume 2 contains:


Fazail-e-Sadaqat (Virtues of the Sadaqah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi

Fazail-e-Hajj (Virtues of Hajj) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi

Thursday, August 1, 2019

August 01, 2019

parveen shakir

Parveen Shakir Poetry

Intro: She is an Urdu poet. She is born in Karachi in 1952.
She buried in Islamabad.


پروین شاکر 24نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ایک ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ 26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ انکی شاعری کا موضوع محبت اور
عورت ہے۔ خوشبو، صدبرگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام مجموعہ کلام ہیں 

perveen



دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر


Poet: Parveen Shakir



دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر 
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر 

پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر 
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر 
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی 
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر 

ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ 
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر 

تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا 
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر 

لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے 
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر


کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

Poet: Parveen Shakir

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی 
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی 

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 
ہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا 
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی 

تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے 
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی 

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے 
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی


اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

Poet: Parveen Shakir
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک 
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک 

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر 

ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک 
دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے 
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک 

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی 
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک 

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر 
میں نام ترا لکھوں کہاں تک 

تنہائی کا ایک ایک لمحہ 
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک 

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج 
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک 
سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو 
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک 

منسوب ہو ہر کرن کسی سے 
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک 

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں 
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک



خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

Poet: Parveen Shakir
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم 
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم 

کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں 

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم 

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے 

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم 

پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا 

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے 
مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم 

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر 
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم 

ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں 
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم 

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام 
لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم 

قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے 
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم 
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے 
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم 

ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا 
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم 


ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

Poet: Parveen Shakir
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا 
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا 

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو 

کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا 

اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ 
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا 
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا 


پورا دکھ اور آدھا چاند

Poet: Parveen Shakir
پورا دکھ اور آدھا چاند 
ہجر کی شب اور ایسا چاند

دن میں وحشت بہل گئی 

رات ہوئی اور نکلا چاند

کس مقتل سے گزرا ہوگا 

اتنا سہما سہما چاند

یادوں کی آباد گلی میں 
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند

میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند

آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند

اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند

برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند

رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند

سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اس کی صورت ہجر کا چاند

صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند

رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند 


گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

Poet: Parveen Shakir
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح 
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے 

جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک 

اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے 

تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار 
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح 


وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا

Poet: Parveen Shakir
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا 
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا

فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس 

تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا

وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں 
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا

وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا 


وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

Poet: Parveen Shakir
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا 
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا 

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے 

ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے 

موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی 

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث 
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا 


ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا

Poet: Parveen Shakir
ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا 
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اس کے آنے کا 

اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا 

یہ خواب زاد ہے کردار کس فسانے کا 

کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے 

اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا 

ابھی میں ایک محاذ دگر پہ الجھی ہوں 

چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا 

کچھ اس طرح کا پر اسرار ہے ترا لہجہ 
کہ جیسے رازکشا ہو کسی خزانے کا 



ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

Poet: Parveen Shakir
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا 
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا 

دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشن طرب میں ہم 

ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا 

جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود 

سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا 

کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام 

اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا 

آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں 
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا 


ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا

Poet: Parveen Shakir
ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا 
وہ میرے سامنے جب پیرہن بدلنے لگا 

بہم ہوئے ہیں تو اب گفتگو نہیں ہوتی 

بیان حال میں طرز سخن بدلنے لگا 

اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا گیا ہے کوئی 

بس اک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا 

ذرا سی دیر کو بارش رکی تھی شاخوں پر 

مزاج سوسن و سرو و سمن بدلنے لگا 

فراز کوہ پہ بجلی کچھ اس طرح چمکی 
لباس وادی و دشت و دمن بدلنے لگا 


قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

Poet: Parveen Shakir
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا

نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے

اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا

آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا

جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا

کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی

مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا

پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا

اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا

مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا


کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

Poet: Parveen Shakir
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک

یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا

اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں

زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید

بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا

شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں

کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا

دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے

سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا

اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سر بام ابھرنے والا


گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

Poet: Parveen Shakir
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے

ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا

بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی

حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا

لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا

جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا

جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا


میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

Poet: Parveen Shakir
میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا 
ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا 

اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر 

سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا 

مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی 

پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا 

بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی 

بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا 

پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا 

قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا 

ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت 

اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا 

پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے 

ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا 

طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا 
اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا 


چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا

Poet: Parveen Shakir
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی

وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری

مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا

اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں

وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا

جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا


چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

Poet: Parveen Shakir
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی

اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر

بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا