Books
October 15, 2019
Tuesday, October 15, 2019
Mirza galib
October 15, 2019
Mirza galib
مرزا غالب
یک روز حافظ داؤد اور کنورابراہیم علی خان سویرے سویرے مرزا صاحب کے مکان پر پہنچے۔ دیوان خانہ خالی تھا ۔ دونوں حضرات وہیں مونڈھوں پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ یکا یک مرزا صاحب ننگے سر، پاؤں میں کف پائیان پہنچے اور سیدھے ہاتھو میں برانڈی کی خالی بوتل لیے برآمد ہوئے ۔ مرزا کے ہاتھ میں خالی بوتل دیکھ کر ان دونوں صاحبان کی ہنسی روکے نہیں رکی۔
مرزا نے جواب دیا،توبہ کیجیے تو بہ۔اپنے منہ پر تھپڑماریے۔شراب جیسی پاک چیز بیت الخلا میں نہیں جاسکتی ۔میں اس کی حرمت کو خوب پہچانتاہوں۔
امروسنگھ جوہر گوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے ۔ ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہ نے مرزا صاحب کو بھی لکھا تو انھوں نے جواباًلکھا : ”امرو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے ۔
ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے ،مرزا صاحب کے مکان پرآئے ۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ۔ اتفاق سے ایک گدھے والا اپنا گدھا لیے سامنے سے گزرا۔
ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے مکان پر آئے۔ دیکھا کہ مرزاصاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ یہ اُن کے پاؤں دابنے لگے۔
مرزا غالب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں کئی مکانات دیکھے ،جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا ،مگر محلسرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کو محلسرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں۔ مرزا صاحب نے پوچھا ، تو بیگم صاحبہ نے بتایا کہ
” اس مکان میں لوگ بَلابتاتے ہیں “
مرزا صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور ہنس کر کہا :
” کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بَلا ہے۔
ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ : ”مرزا! تم نے کتنے روزے رکھے ؟“ مرزا صاحب نے جواب دیا” پیرومرشد : ایک نہیں رکھا۔ “
ایک دفعہ ماہ رمضان کے مہینے میں مرزا غالب نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگاکر کھایا ۔ ایک متقی پرہیزگار شخص جوپاس ہی بیٹھے تھے بڑے متعجب ہوئے اور پوچھا، حضرت! آپ روزہ نہیں رکھتے ۔
ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر1858ء کی اخیرتاریخوں میں خط ارسال کیا ۔ دوست نے جنوری 1859 ء کی پہلی یادوسری تاریخ کو جواب لکھا ۔ مرزا صاحب ان کو لکھتے ہیں ۔
” دیکھو صاحب یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔ 1858 ء کے خط کا جواب 1859 ء میں بھیجتے ہو اور مزا یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ میں نے تو دوسرے ہی دن جواب لکھا تھا۔
ہنگا مہ غدر کے بعد جب مرزا غالب کی پنشن بند تھی ۔ ایک دن پنڈت موتی لال، میرمنشی لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب‘مرزا صاحب کے مکان پر آئے ۔ دوران گفتگو میں پنشن کا بھی ذکر آیا مرزا صاحب نے کہا ” تمام عمر اگر ایک دن شراب نہ پی ہو ‘ تو کا فر اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کس طرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کیا۔
ایک دن کسی محفل شعرد سخن میں مولانا صہبائی کا ذکرآیا تو مرزا غالب نے کہا کہ ”مولانا نے بھی کیا عجیب وغریب تخلص رکھا ہے، عمر بھر میں ایک چلو بھی پینا نصیب نہیں ہوئی اور صہبائی تخلص رکھا ہے، سبحان اللہ قربان جائیے اس اتقا کے اور صدقے جائیے اس تخلص کے ۔“
مرزا غالب کو بھی غدرکے ہنگامے کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بلایا گیا ۔
” ویل مرزا صاحب تو مسلمان ہے ؟ “
مرزاصاحب نے نہایت احترام سے جواب دیا۔
”آدھا مسلمان ہوں۔“
کرنل براؤن نے تعجب سے کہا ۔
”آدھا مسلمان کیا؟ اس کا مطلب ؟“
”شراب پیتا ہوں ،وٴرنہیں کھاتا۔
یہ سُن کر کرنل براؤن بہت مخطوظ ہوا اور مرزا صاحب کو اعزاز کے ساتھ رخصت کردیا۔
جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے ۔ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔مرزا نے کہا۔”کون بھڑواقید سے چھوٹا ہے !پہلے گورے کی قیدمیں تھا ،اب کالے کی قیدمیں ہوں۔
ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی ،تو نماز پڑھنے چلے گئے۔اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہواکہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی ،چنانچہ وہ مسجد کے سامنے پہنچا اور وہاں سے بوتل دکھائی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد سے نکلنے لگے تو کسی نے کہا:”یہ کیا ؟کہ بغیرنماز پڑھے چل دیے۔“انھوں نے کہا جس چیز کے لیے دعا مانگنا تھی وہ تو یونہی مل گئی۔
ذرائع آمدنی مسدد ہوجانے کی وجہ سے مرزا غالب بیحد پریشان تھے اور لوگ روٹی کھاتے ہیں تو بقول غالب وہ خود کپڑا کھاتے تھے( ناداری کے باعث گھرمیں کپڑے اوڑھنابچھونا جو کچھ تھا سب بیچ بیچ کے کھانا پڑا)پریشانی کی اس حالت میں بھی وہ اپنی رگ ظرافت کو پھڑکنے سے باز رکھ سکے۔ایک خط میں میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔
”یہاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔
مرزا صاحب کھانا کھا رہے تھے، چھٹی رسان نے ایک لفافہ لا کر دیا۔لفافے کی بے ر بطی اور کا تب کے نام کی اجنبئیت سے ان کو یقین ہو گیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں ۔لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب جو مٹزاصاحب سے ملاقات کے مشتاق تھے ،بنارس سے دلی تشریف لائے اور مرزا صاحب کے یہاں حاضر ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور ساتھ ہی مرزا صاحب سے ان کے ایک شعر کی بہت تعریف کی ۔
اسد!اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر‘شاباش رحمت خدا کی
مرزا صاحب نے شعر سن کر کہا۔
”اگر یہ کسی اور اسد کا شعر ہے تو اس پر خدا کی رحمت ہواور اگر مجھ اسد کا یہ شعر ہے تومجھ پر لعنت خدا کی۔“
ایک روز مرزا صاحب ،فتح الملک بہادر سے ملنے اُن کے یہاں گئے۔
”ارے مرزا صاحب کہاں ہیں؟“
مرزا غالب نے یہ سُن کر وہیں سے جواب دیا۔
”غلام گردش میں ہے۔
یہ سُن کر صاحب عالم خود باہر تشریف لے آئے اور فوراً مرزا صاحب کو اپنے ساتھ اندر لے گئے۔
ایک باردلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔راستے میں ایک تنگ وتاریک گلی سے گزر رہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھامولانا نے یہ دیکھ کرکہا۔
”مرزا صاحب دلی میں گدھے بہت ہیں۔
”نہیں حضرت، باہر سے آجاتے ہیں۔“
مولانا فیض الحسن جھینپ کر چپ ہورہے۔
ایک دن جب کہ آفتاب غروب ہورہا تھا سیّد سردار مرزا ،مرزا غالب سے ملنے کو آئے جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر کھسکتے کھسکتے فرش کے کنار ے تک آئے تا کہ سیّد صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں۔انھوں نے کہا”قبلہ ! آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟میں جوتا خود ہی پہن لیتا۔
ایک دفعہ دہلی میں وبا پھیلی بمیر مہدی مجروح نے جو مراز صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔مرزا صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ”حضرت اوبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے؟“
مرزا صاحب جواب میں لکھتے ہیں”بھئی کیسی وبا؟جب (مجھ جیسے)چھیا سٹھ برس کے بڈھے اور چوسٹھ برس کی بڑھیا (مرزا صاحب کی بیوی سے مراد ہے) کو نہ مارسکی تو، تُف بریں وبا۔
مرزا صاحب نے خسرومرزا الٰہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے اور اپنے سلسلے کے شجر ہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ انھوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لیے کہا،مرزا صاحب نے نقل تو کردی مگر اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا دوسرا چھوڑ دیا۔تیسرا پھرلکھ دیا چوتھا حذف کر دیا۔اُن کے خسر صاحب یہ نقل دیکھ کر بہت ناراض ہوئے کہ یہ کیا غضب کیا۔
”حضرت! آپ اس کا کچھ خیال نہ فرمائیے۔شجرہ دراصل خدا تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے ،سو زینے کی ایک ایک سیڑھی اگر پیچ سے نکال دی جائے تو چنداں ہر ج واقع نہیں ہوتا۔آدمی ذرا اُچک اُچک کے اوپر چڑھ سکتاہے۔“
اُن کے خسر صاحب یہ سن کر برافرو ختہ ہوئے اور انھوں نے وہ نقل پھاڑ ڈالی اور پھر کبھی مرزا سے شجرہ نقل کرنے کی فرمائش نہیں کی۔
ایک دفعہ مرزا صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بیمارہوئیں ۔مرزا صاحب اُن کی عیادت کو گئے اور ان سے پوچھا ”کیا حال ہے۔ “انھوں نے کہا” مرتی ہوں۔ قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لیے جاتی ہوں۔“ مرزا صاحب فرمانے لگے ”بوا! بھلا یہ کیا فکرکی بات ہے! کیا خدا کے ہاں بھی مفتی صدر الدین خان بیٹھے ہیں جو ڈگری کرکے پکڑوابلائیں گے۔
غدر کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگر گوں رہی، آخر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے سوروپیہ ماہانہ تاحیات وظیفہ مقرر کر دیا۔
مرزا صاحب نے کہا۔”حضرت !خدا نے مجھے آپ کے سُپردکیا ہے آپ پھر اُلٹامجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔“
Sunday, October 6, 2019
tips
October 06, 2019
how to make backlinks
Saturday, August 3, 2019
urdu novel
August 03, 2019
free online urdu novels
Free online Urdu novels
Here are the most popular novels to read online. If you are finding to get online read. This is the best site to do this.
List of novels by Umera Ahmad
Peer
e Kamil By Umera Ahmad
|
Read: Peere
Kamil
|
Amar
Bel
|
Read
online: Amar bail
|
Umeed
Aur Mohabbat
|
Read
online: Umeed
aur Mohabbat
|
La
Hasil
|
Read
online: La Hasil
|
Mane
Khabboo ka Shajar Dekha ha
|
Read
online: Mane
Khabboo ka Shajar Dekha ha
|
Meri
Zaat zara benishan
|
Read
online: Meri
Zaat zara benishan
|
Qaid
e Tanhai
|
Read
online: Qaid
e Tanhai
|
Shehar
e Zaat
|
Read
online: Shehar
e Zaat
|
Ye
jo subah ka ik sitara ha
|
Read
online: Ye
jo subah ka ik sitara ha
|
Koi
lamha khuaab ni hota
|
Read online: Koi
lamha khuaab ni hota
|
Islami Book
Fathullah ul ahad Sharh Al Adab ul Mufrad By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri
|
|
Mahmood ul Fatawa New By Maulana Mufti Ahmad Khanpuri محمود الفتاوی جدید |
|
Husn e Khatma By Mufti Shuaibullah Khan Miftahi حسن خاتمہ |
|
Anwaar e Hajj o Umrah By Mufti Muhammad Salman Zahid انوار حج و عمرہ |
|
Kitab un Nahwa By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب النحو | |
Kitab us Sarf By Maulana Qari Abdur Rahman Amritsari کتاب الصرف |
|
Deen e Rahmat By Maulana Shah Moinuddin Ahmad Nadvi دین رحمت |
|
Islam aur Daor e Hazir kay Shubhaat o Mughaltay By Mufti Muhammad Taqi Usmani اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے |
Read Online Part 1 Read Online
|
|
Read Online Part 2
|
|
Read Online
|
|
Read Online
|
|
Read Online
|
Volume 1 contains:
Hikayat-e-Sahabah (Stories of the Sahabah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Quran (Virtues of the Quran) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Namaz (Virtues of Salah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Zikr (Virtues of Dhikr) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Tabligh (Virtues of Tabligh) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Ramadhan (Virtues of Ramadan) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Musalmano-ki-Maujudah-Pasti-ka-Wahid-Ilaj (Muslim Degeneration and its Only Remedy) by Ihtisham ul-Hasan Kandhalvi
Hikayat-e-Sahabah (Stories of the Sahabah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Quran (Virtues of the Quran) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Namaz (Virtues of Salah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Zikr (Virtues of Dhikr) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Tabligh (Virtues of Tabligh) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Ramadhan (Virtues of Ramadan) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Musalmano-ki-Maujudah-Pasti-ka-Wahid-Ilaj (Muslim Degeneration and its Only Remedy) by Ihtisham ul-Hasan Kandhalvi
Volume 2 contains:
Fazail-e-Sadaqat (Virtues of the Sadaqah) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Fazail-e-Hajj (Virtues of Hajj) by Muhammad Zakariyya Kandhalvi
Thursday, August 1, 2019
parveen shakir
August 01, 2019
parveen shakir
Parveen Shakir Poetry
Intro: She is an Urdu poet. She is born in Karachi in 1952.
She buried in Islamabad.
عورت ہے۔ خوشبو، صدبرگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام مجموعہ کلام ہیں
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
Poet: Parveen Shakir
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک
Poet: Parveen Shakir
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک
ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر
ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک
ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر
ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک
دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک
پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک
ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک
تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک
گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک
خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک
پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک
ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک
تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک
گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک
سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک
منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک
آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک
دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک
منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک
آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
Poet: Parveen Shakir
خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم
کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم
کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے
سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم
رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں
زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم
وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام
لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم
قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے
کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم
وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے
مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم
ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا
یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
Poet: Parveen Shakir
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرضسیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
پورا دکھ اور آدھا چاند
Poet: Parveen Shakir
پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھےنیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند
اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھاتو نے کس کو سوچا چاند
برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند
رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگااس کی صورت ہجر کا چاند
صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
Poet: Parveen Shakir
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکنشیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا
Poet: Parveen Shakir
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس
تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس
تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
Poet: Parveen Shakir
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا
Poet: Parveen Shakir
ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اس کے آنے کا
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
یہ خواب زاد ہے کردار کس فسانے کا
کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
ابھی میں ایک محاذ دگر پہ الجھی ہوں
چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا
کچھ اس طرح کا پر اسرار ہے ترا لہجہ
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اس کے آنے کا
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
یہ خواب زاد ہے کردار کس فسانے کا
کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
ابھی میں ایک محاذ دگر پہ الجھی ہوں
چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا
کچھ اس طرح کا پر اسرار ہے ترا لہجہ
کہ جیسے رازکشا ہو کسی خزانے کا
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
Poet: Parveen Shakir
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشن طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا
کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشن طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا
کار جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا
Poet: Parveen Shakir
ہوا مہک اٹھی رنگ چمن بدلنے لگا
وہ میرے سامنے جب پیرہن بدلنے لگا
بہم ہوئے ہیں تو اب گفتگو نہیں ہوتی
بیان حال میں طرز سخن بدلنے لگا
اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا گیا ہے کوئی
بس اک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا
ذرا سی دیر کو بارش رکی تھی شاخوں پر
مزاج سوسن و سرو و سمن بدلنے لگا
فراز کوہ پہ بجلی کچھ اس طرح چمکی
وہ میرے سامنے جب پیرہن بدلنے لگا
بہم ہوئے ہیں تو اب گفتگو نہیں ہوتی
بیان حال میں طرز سخن بدلنے لگا
اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا گیا ہے کوئی
بس اک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا
ذرا سی دیر کو بارش رکی تھی شاخوں پر
مزاج سوسن و سرو و سمن بدلنے لگا
فراز کوہ پہ بجلی کچھ اس طرح چمکی
لباس وادی و دشت و دمن بدلنے لگا
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
Poet: Parveen Shakir
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے
اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا
آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا
جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا
کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی
مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا
پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا
اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا
مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے
اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا
آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا
جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا
کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی
مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا
پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا
اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا
مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
Poet: Parveen Shakir
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا
اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا
اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سر بام ابھرنے والا
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
Poet: Parveen Shakir
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے
ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا
بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا
لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا
جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا
جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے
ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا
بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا
لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا
جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا
جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا
میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
Poet: Parveen Shakir
میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا
اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا
مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا
بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا
پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا
ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا
پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا
طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا
اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا
مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا
بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا
پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا
ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا
پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا
طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا
Poet: Parveen Shakir
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
Poet: Parveen Shakir
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا